ملاکنڈ پیڈیا.
سخاکوٹ شہر.
تاریخ کو یاد رکھنا ہے....سخا کوٹ( بمبولئ) شہر جو ڈسٹرکٹ ملاکنڈ کا تیسرا بڑا شہر ہے,یہ شہر ڈسٹرکٹ ملاکنڈ میں جنوباً ضلع مردان سے جُڑا ہوا ہے.سخا کوٹ نام کی تاریخ بھی ماضی کے جھروکوں میں فناہ ہے,زیادہ تر عوام اس کے نام کی وضاحت سے باخبر نہیں.اس نام کی تاریخ خوانینِ دیر کے تاریخ کے ساتھ جُڑی ہوئی ہے.کہانی یوں ہے جب ریاستِ دیر پر اخون الیاس کی اولاد میں سے خان ظفر خان نے 1804 میں حُکمرانی شروع کی ,تو پہلے پہل آپ نے بیبیوڑ سے اپنا دارالخلافہ دیر خاص مُنتقل کیا,چند سال کی حُکمرانی کرنے کے بعد جب آپ وفات پاگئے,تو پھر آپکا بیٹا خان قاسم خان حُکمران بنا,خان قاسم خان کے چار بیٹے تھے,غزن خان,محمد سید خان,آزاد خان,اور سیداللّہ خان ,ان بھائیوں میں آزاد خان نے سلطنت دیر کی خاطر اپنے باپ قاسم خان کو شہید کردیا (دیر شہر میں آج جو قبرستان خان شہید قبرستان کے نام سے مشہور ہے وہ قاسم خان شہید کے نام سے معروف ہے).خان قاسم خان کا چھوٹا بیٹا خان غزن خان اپنی ماں اخونزائے بی بی( جو چترال کے شاہ کٹورکی بہن تھی ) کو ساتھ لیکر چترال چلا گیا,اور اُسکے باقی تین بھائیوں کے درمیان ریاستِ دیر کی حُکمرانی حاصل کرنے کے لئے رسّہ کشی شروع ہوئی.جسکی وجہ سے ریاست کا نظم و نسق درہم برہم ہوگیا.آخر کار ریاستِ دیر کے بعض خوانین و سردار چترال چلے گئے اور وہاں سے خان غزن خان کو لاکر ریاستِ دیر کی مسند خانی پر بھٹایا..خان غزن خان نے اپنے کُچھ بھائیوں کو قتل کیا,اور کُچھ کو جلاوطن کیا.اسطرح خان غزن خان تنِ تنہا ریاستِ دیر کے حُکمران بن بیٹھے.خان غزن خان نے 1855 کے لگ بھگ اپنی ریاست کے حدود مغرب میں اسمار,شمال میں عشریت,جنوب میں ملاکنڈ اور سوات تک پہُنچائے.خان غزن خان کے عہد میں ایک مشہور جنگ ملاکنڈ میں سمہ رانیزئی کے علاقے میں یوسفزئی قبائلی لشکر کے ساتھ ہوئی.اسکی کہانی یوں ہے کہ خان غزن خان نے سمہ رانیزئی کے علاقوں پر اپنی عملداری قائم رکھنا چاہی,اس عرض سے 1860 عیسوی کے لگ بھگ اُس نے اپنے بیٹے خان رحمت اللّہ خان کی کمان میں فوج بیجھی.دوسری طرف یوسفزئی و اُتمانخیل کے اقوام نے خان رحمت اللّہ خان کے خلاف ہشتنگر اور سمہ سے لشکر جمع کرکے اُن پر چڑھائی کی.سمہ رانینزئی ( سخاکوٹ کے مقام) پر خان رحمت اللّہ خان اور یوسفزئی و اُتمانخیل قبائل کے درمیان سخت جنگ ہوئی.جس میں دونوں اطراف سے بڑا خون خرابا ہوا,لیکن آخر میں سمہ کے اقوام نے دیر کے لشکر کو شکست دی,اور خان رحمت اللّہ خان کو گرفتار کر لیا گیا, چونکہ دیر میں یوسفزئی قوم کی شاخ ملیزئی آباد ہیں.اس وجہ سے خان رحمت اللّہ خان پر رحم کھا کر اُسکوں کو پھر آزاد کردیا گیا,سمہ رانزئی کی اس لڑائی میں اتنے سارے لوگ مارے گئے تھے.کہ اُنکی لاشیں اُٹھانا بھی ناممکن تھی.اسلئے ایک لمبے عرصے تک وہ لاشیں اُدھر پڑی رہی ,جنکی بدبو سے تنگ آکر اس علاقے کے رہنے والے اس مقام کو سخاکوٹ ( گندہ مکان) پُکارنے لگے .اور آجکل یہ علاقہ سخاکوٹ کے نام سے مشہور و معروف ہے ,جبکہ خیر الحکیم زئی کی کتاب کے حوالہ سے سخاکوٹ نام ساکا کوٹ سے ماخوذ ہے,ساکا نامی قوم یہاں ساڑھے چار ہزار سال پہلے وارد ہوئی تھی ... جبکہ جس جگہ خان رحمت اللّہ خان کو گرفتار کیا گیا تھا اُس جگہ کو آجکل خان ڈھیرئی( خان گھڑئی) کہا جاتا ہے...سخاکوٹ تُورپُل کے مُقام پر انگریز سامراج نے 1895 میں پہلی بار پُل تعمیر کرکے درگئ اور سخاکوٹ کو ملایا.
سخاکوٹ کے موسٰی بابا کے قدیم قبرستان میں قبیلہ یوسفزئی کے سب سے امیر ترین شخص موسیٰ ابنِ ایسکوں کا مزار بھی موجود ہے,جسکے نام پر موسیٰ مینہ گاؤں آجکل آباد ہیں.
سخاکوٹ میں جو جو قبائلی عوام رہائش پزیر ہیں اُن میں شلمانی,خٹک,سواتی,اُتمانخیل,گُجر وغیرہ شامل ہیں..
تحریر..امجد علی اُتمانخیل
0 Comments