دوستوں آج آپکے ساتھ ریاست چترال میں مہترشپ طرز حکومت کے بارے میں اپنی معلومات share کرے گے.. ۔مہتر لفظ رئیس حکمرانوں کے بعد خاندان کٹور کا لقب ھے۔ یعنی مہتر سنگین علی اول 16وین صدی سے یہ چترال کے شاھان کا خطاب ھے
چترال میں گوشخصی حکومت پُرانے زمانے سے چلی آرہی ہے .مگر یہ ایک چھوٹی سی جمہوری سلطنت ہے. یہاں کا مہتر امان الملک (1892-1857) جو نسلاً اس ریاست کا فرمانرواں چلا آرہا ہے,اُسکے ہاتھ میں مُلک کی سب باگ ڈور ہے.اُس نے اپنی ریاست کے لئے مندرجہ ذیل عہدہ دار مقرر کئے ہیں
1 . دیوان بیگی..جو مہتر چترال کا ایک خاص مُشیر ہوتا ہے.تمام کاروبار میں اُسکی صلاح مشورے کا مختاج ہوتا ہے.خزانے اور قیمتی مال و اسباب کی چابیاں اُسکے پاس ہوتے ہیں .یہ سلطنت کا وزیراعظم ہوتا ہے..یہ اپنے رشتہ داروں کے سوا اوروں کی رسائی مہتر چترال کے دربار میں نہیں ہونے دیتا.سارے چترال میں ایک ہی دیوان بیگی ہوتا ہے,جو مہتر کے پاس رہتا ہے.
2.حاکم.....مہتر کی طرف سے ایک حاکم یا گورنر ضلع مقرر ہوتا ہے.جیسے چترالی حاکیم کہہ کر پُکارتے ہے اسکے ذمے ضلع کا انتظام ہوتا ہے.سارے ریاست چترال میں چھ یا سات حاکم ہوتے ہیں.
3..اتالیق...یہ حاکم کا نائب ہوتا ہے.دو دو تین تین ضلعوں پر مہتر اپنے رشتہ داروں میں سے کسی ایک کو نگران مقرر کرتا ہے,حاکم اور اتالیق اُسکے ماتحت کام کرتے ہیں.وہ اصل میں مہتر چترال کی طرف سے معتبر خاص ہوتا ہے.
4...اقسقال.... مہتر کی خانہ داری کا سامان کرنا,ذاتی معاملات کی نگرانی کرنا یہ اقسقال کی ذمہ داری ہوتی ہے..
5...سرکار..ریاست چترال میں واقع ہر قلعے میں مہتر چترال کی طرف سے ایک سرکار مقرر ہوتا ہے.جو مہتر کا سٹور کیپر ہوتا ہے.
6...چُرویلوں...اقسقال کے عُہدہ دار سے دوسرے نمبر پر چُرویلوں کا عُہدہ ایک اور شخص کو دیا جاتا ہے.یہ مُلک کی آمد خواہ نقد ہو یہ جنس کی شکل میں..وہ جمع کرتا ہے .
7...بارہ مُش...بارہ مُش بھی چُرویلوں کی طرح مُلک کے متفرق کاروبار سے ٹیکس وصولی کرتا ہے..
8..چھُربوں...یہ اقسقال اور چُرویلوں کا چپڑاسی ہوتا ہے...چترال میں ہندوستان یا افغانستان کی طرح کوئی عدالتی نظام نہیں ہوتا..مہتر ہر صبح محل سے نکل کر دربار عام لگاتا ہے,جس کسی کا کوئی عرض ہو,وہ اُٹھ کر مہتر کے ہاتھ کو چومتا ہے.اور اپنا مُدعا بیان کرتا ہے,جیسے خُسون کہتے ہے .مہتر خُسون سُن کر اپنے مُلازموں میں سے ایک کو اُسکی تحقیقات کے لئے مقرر کرتا ہے..
تحریر.. امجد علی اُتمانخیل
0 Comments