سواتی جو ایک بڑا قبیلہ ہے.اور جو عام طور سوات اور خاص کر آجکل ضلع مانسہرہ,بٹگرام اور ہزارہ کے علاقوں میں آباد ہیں.یہ قبیلہ کئ ذیلی شاخوں جیسے متراوی,ممیالی,اور گبری پر مشتمل ہیں موجودہ ضلع مانسہرہ اور تحصیل بٹ گرام میں سواتیوں کے جہانگیری,ارغشال,ملکال,گیلال,ڈوڈال,سلیمانی,سرخیلی, پنجغول,پنج میرال,دودال قبائل آباد ہیں.جبکہ وادی آلائی میں سواتیوں کے بیبال,جلانگیال,گیلال,ڈوٹیال,اشرال,پیائی,موسی خیل وغیرہ ذیلی شاخیں آباد ہیں.سواتی قوم جو ہزارہ کی ایک بڑی قوم ہیں اس پر تفصیلی بحث کرے گے پہلے ہم ہزارہ نام کی وضاحت آپ سب کے ساتھ Share کرے گے.ہزارہ کا پُرانا نام ابی ساریز تھا, یہ نام ابی سارا سے ماخوذ ہے ابی سارا سکنداراعظم کے گندھارا پر حملوں کے وقت ہزارہ اور کشمیر کا راجہ تھا اسلئے اُسکے نام کی نسبت سے یہ علاقہ ابی ساریز کہلاتا تھا .جبکہ ہزارہ کا موجودہ نام پھر تیمور بادشاہ کی فوج کی ایک رجمنٹ جو قارلغ ہزارہ کے نام سے جانی جاتی تھی , 1399 عیسوی میں قارلغ ہزارہ نے ان علاقوں پر قبضہ کرکے یہاں مستقل رہائش اختیار کی اور یہ علاقہ قارلغ ہزارہ کے نام سے مشہور ہونے لگا,اس علاقے میں ترک جو خاص کر ہریپور پر قابض تھے .اسلئے اُنکے نام سے یہ علاقہ ہزارہ قارلغ مشہور ہونے لگا .جو پھر ہزارہ نام اب رھ گیا. ہزارہ میں سواتی قوم جو اب آباد ہیں اُنکے متعلق مندرجہ ذیل روایات مشہور ہیں..پہلی روایت یہ کہ .تمام سواتی قبائل پختون قبائل ہیں جو محمود غزنوی اور محمود غوری کے ادوار میں سوات کو بحیثییت فاتحین آئے اور سوات میں پھر آباد ہوئے .دوسری روایت یہ ہے سمیع اللّہ جان نے تحقیق الافغان میں لکھا ہے کہ سواتی پختون ہیں اور یونانی النسل سکندر اعظم سے ہیں..تیسری روایت یہ ہے. پروفیسر اختر نے انکوں سکندر اعظم کے بجائے ذوالقرنین قرانی سے انکا رشتہ جوڑا ہے ..اللّہ بخش یوسفی لکھتے ہیں.حب اس سواتی قبیلے نے سوات سے نکل کر ہزارہ پر قبضہ کیا,تو یہاں وہ سواتی قبائل کے نام سے مشہور ہونے لگے.انگریز مورخ الفسٹن کے مطابق سواتی جن کو بغض اوقات دہقانی بھی کہا جاتا ہے,یہ ہندی النسل معلوم ہوتے ہیں زمانہ قدیم میں انکی سلطنت جہلم سے جلال آباد تک تھی اور پھر سوات بونیر آکر یہاں حکومت کرنے لگے اور پھر ہندرھویں صدی میں یوسفزئی قوم نے انکوں سوات سے نکال کر ہزارہ کی طرف دھکیل دیا. کتاب ( صوبہ خیبر پختونخواہ کیوں نہیں) میں ڈاکٹر مبارک احمد بسی خیل لکھتے ہیں.کہ سوات میں یوسفزئی قوم کی آمد سے قبل جو قدیم پھٹان قوم آباد تھی وہ سواتی قوم تھی .جنہوں نے پھر یوسفزئی قوم کی دباؤ کی وجہ سے سوات چھوڑا,بیلیو اور میک کریگر لکھتے ہیں.تمام سواتی سُنی ہیں,اور انکے رسم و رواج پھٹانو جیسے ہیں.,ڈیزل ایبٹ سن اپنی کتاب پنجاب کاسٹ میں لکھتے ہیں تمام سواتی مسلمان سُنی مسلک سے ہیں.ایک اور مورخ ریورٹی سواتیوں کے متعلق لکھتا ہے.کہ سواتی حسب و نسب کے لحاظ سے گبری تاجک ہیں.سر اوولف کیرو کے مطابق سواتی سوات کے قدیم باشندے ہیں.جنکوں بعد میں یوسفزئیوں نے سوات سے بے دخل کیا..تاریخ ہندوستان کے مطابق سوات کی وجہ تسمیہ قدیم ہندو قوم سوہات کے نام کی وجہ سے دیا گیا,جنکوں پھر پھٹانوں نے قبضہ کیا,اور وہ سواتی نام سے مشہور ہونے لگے ,فضل ربی راہی اپنی کتاب سوات سیاحوں کی جنت میں لکھتے ہیں.کہ گیارھوی صدی میں محمود غزنوی کی لشکر باجوڑ کے راستے سوات میں داخل ہوئی,اور یہاں ہندو شاہی دور کے آخری بادشاہ راجا گیرا کو شکست دیکر سوات میں اسلامی دور کا آغاز کیا ,محمود غزنوی کے ساتھ جو پھٹان لشکر یہاں آئی تھی وہ مستقل یہاں آباد ہوئی اور سواتی نام سے مشہور ہونے لگی.1485 عیسویں میں جب پھر مُغل حُکمران اُلغ بیگ نے یوسفزئی قوم کے مشران کو کابل میں بےدردی سے قتل کیا.تو باقی یوسفزئی قبیلہ کے لوگ کابل سے کوچ کرکے پشاور دلزاک آگئے.اور پھر وقت گُزرنے کے ساتھ ساتھ پشاور سے باجوڑ, ملاکنڈ سوات تک کے علاقوں پر قابض ہوتے چلے گئے ,1515 عیسوی میں یوسفزئی قبیلے نے آخری سلاطین سوات سلطان اویس کو سوات سے بے دخل کیا,اور سواتی قبائل بھی پہلے 120سال تک پہاڑی علاقوں میں پناہ لیکر رہنے لگے اور بعد میں ہزارہ مانسہرہ آلائی کی طرف کوچ کر گئے ,ہزارہ کے علاقوں میں سواتیوں کے بسنے کے حوالے سے انگریز ایڈورڈ جارج ویس تاریخ ہزارہ میں لکھتے ہیں کہ سواتیوں کی آمد ترکوں کے عہد میں ہوئی.اُس وقت اس ملک پر ترکوں کی حکومت تھی ان ترکوں کا ایک حُکمران دھمتوڑ میں اور اُسکا ایک اور بھائی شاہ محمود گلی باغ میں حاکم تھا اس شاہ محمود کا ایک داماد سید جلال ترمذی تھا,جو کسی وجہ سے ناراض ہوکر سوات چلا گیا اور وہاں سواتی قوم کی ایک بڑی لشکر تیار کرکے 1703 میں ہزارہ پر یلغار کی اور یہاں ترکوں کی حکومت کا خاتمہ کرنے کے بعد سواتی یہاں آباد ہونے لگے ...سواتی نام ک
0 Comments