سوات کی وجہ تسمیہ

  سوات کی وجہ تسمیہ 

  سوات

مورخین کُچھ یوں بیان کرتے ہے..کہ یہ نام  دو الفاظ سو اور آت کا مرکب ہے. سو لفظ سریانی زُبان میں سورج کو کہتے ہے, جبکہ آت لفظ  زمین کے لئے استعمال ہوتا ہے .پس سوات کے معنیٰ  سورج کی زمین کے ہے.جبکہ آریا  کی کتاب رگِ وید میں اسکوں سواستو کے نام سے یاد کیا گیا ہے ,یونانی تاریخ میں سوات کو اساکنوئی کے نام سے یاد کیا گیا ہےجبکہ تاریخ فرشتہ کے مصنف  محمد قاسم فرشتہ کے مطابق  گیارہویں صدی میں محمود عزنوی کے زمانے میں سوات اور باجوڑ کو  قیرات ناردین کے نام سے پُکارا جاتا تھا.جبکہ چینی زائرین  فاہیان,ہیونسونگ,سنگیون .واکنگ نے  سوات کو  سوپوپاسوسوتو  کے نام سے یاد کیا ہے..گیارہویں صدی میں محمود غزنوی نے جب سوات میں آخری ہندشاہی بادشاہ راجہ گیرا کی سلطنت کا خاتمہ کیا,تو جو قبائل اُسکے ساتھ اس جنگ میں شریک تھے.اُن  کو سوات میں پھر مستقل طور پر  آباد کیا گیا.اور اُن کو پھر سواتی قبائل کے نام سے یاد کیا جانے لگا..زمانہ قدیم میں سوات کی تاریخ ہمارے سامنے 326 قبل مسح میں سامنے آتی ہے.جب یونانی سپہ سالار سکندراعظم کابل سے ہوتا ہوا  پہلے ارگائن (باجوڑ) پر حملہ آور ہوا ,اور اُسکے بعد مساگا( تالاش) .بازیرا( بریکوٹ) ,اوورا ( اوڈیگرام) سوات کو فتح کرنے کے بعد ان علاقوں پر اپنے  ایک گورنر سلیکوکس  کو تعینات کیا.,304 قبل مسح کے بعد راجہ چندر گپت موریہ نے سوات کے علاقے یونانی گورنر سے آزاد کراکے یہاں موریہ سلطنت کی داغ بیل ڈالی.راجہ چندر گپت موریہ کے بعد  راجہ کنشکا ,جو بدھ مت کے حکمران تھے یہاں حکمرانی کرنے لگے.اُسکے بعد رام راجہ.راجہ وراٹھ,راجہ بیٹی,راجہ ہوڈی,اور پھرراجہ گیرا آخری حُکمرانِ سوات رہے.اُسکے بعد 15 ویں صدی عیسوی میں یوسفزئی قبائل نے کابل سے کوچ کرکے یہاں سوات میں سلاطین سوات کے آخری حُکمران  سلطان اویس کی سلطنت کا خاتمہ کرکے یہاں یوسفزئی قبائل کو مستقل طور آباد کیا.یوسفزئی  قبیلہ اندرونی طور سے تین شاخوں میں تقسیم ہیں....اکوزئی جو کہ وادی سوات میں آباد ہیں......نویزئی جو کہ بونیر کے علاقے میں آباد ہیں.....ملیزئی جو کہ ریاست  دیر میں آباد ہیں.. اسطرح سوات میں آباد قوموں کی تفصیل یوں ہیں..یوسفزئی پٹھان..کوہستانی قوم, سید اور میاگان,سید علی ترمذی کے سلسلہ نسب سے وابستہ  سید قوم بھی سوات میں آباد ہیں.اسکے علاوہ,اجڑ,گوجر, پراچہ ذات کے لوگ بھی آباد ہے. سوات میں ریاستی دور کا آغاز  اخوند آف سوات   عبدالغفور  جو سیدو بابا کے نام سے مشہور ہے,اور جو 1794 کو سوات کے علاقے شامیزئی میں جبڑی نامی گاؤں میں عبدالواحد کے گھر پیدا ہوئے. سے ہوا. اخوند آف سوات عبدالغفور نے سید علی ترمذی  پیر بابا کے  خاندان کے چشم و چراغ سید اکبر شاہ کو ریاست سوات کا پہلا  امیر شریعت مقرر کیا.اور سوات کا پہلا داراخلافہ غالیگی کا مقام  منتخب کیا گیا.1849 سے لیکر 1857 تک سید اکبر شاہ نے سوات پر حُکمرانی کی..1857  میں  برٹش سامراج کے خلاف جب جنگ آزادی شروع ہوئی.تو اُس وقت سید اکبر شاہ وفات پاگئے.آپکے بعد آپکے بیٹے سید مبارک شاہ کو سوات کا حُکمران بنایا گیا.یہاں آپ کو بتائے..1849 سے لیکر 1857 تک سید اکبر شاہ کے دور حکومت کو شرعی حکومت کہا جاتا تھا.سد مبارک شاہ کے بعد اپریل 1915 میں سید عبدالجبار شاہ سوات کا حُکمران بنا,لیکن دو سال بعد اخوند آف سوات عبدالغفور کے خاندان کے میاںگل عبدالودود نے  سید عبدالجبار شاہ کی حُکومت کا خاتمہ کرکے سوات میں والیزم  طرز حکومت کو دوام بخشا .1917 تا 1949 تک میاں گل عبدالودود سوات کے پہلے والئ رہے.1949 تا 1969 تک میاںگل  عبدالحق جہانزیب والئی سوات رہے.1969 میں  ریاست سوات کو  حکومت پاکستان کا حصہ بنا دیا گیا .اُسکے بعد میاںگل اورنگزیب رسمی طور پر  والئ سوات رہے..یہاں آپ کو بتائے انگریز  اقتدار سےقبل ملاکنڈ ایجنسی کا علاقہ سخاکوٹ تک سوات میں شامل تھا.اور اس سارے علاقے کو سوات کے نام سے پُکارا جاتا تھا..لیکن جب 1895 میں برٹش سامراج ملاکنڈ پر قابض ہوئی تو سوات کے  حدود لنڈاکی نامی گاؤں تک محدود ہوکر رہ گئے..اور اسی  لنڈاکی کے مقام پر ریاست سوات کی پہلی کسٹم چوکی قائم ہوئی. آج سوات کا کُل رقبہ چار ہزار مربع میل ہے.اس ریاست کے شمال میں ریاست چترال,جنوب میں ضلع مردان ,مغرب میں ریاست دیر,اور مشرق میں ریاست امب اور دریائے سندھ بہتا ہے.

...تحریر.امجد علی اُتمانخیل

Keywords: Malakand Pedia with Amjad Ali Utmankhel ; Malakand Pedia ;Swat Name  

amjad-mkd.blogspot.com 

Post a Comment

0 Comments