ضلع ملاکنڈ کی وجہ تسمیہ.
مالاکنڈ یا ملاکنڈ ایک ہی علاقہ کے نام ہے.اسکے جنوب میں درگئ اور سخاکوٹ کے علاقے واقع ہیں,اور شمال کی جانب بٹ خیلہ اور تھانہ واقع ہیں.ملاکنڈ ایک پہاڑی کا نام ہے,اور اسی نام سے یہ سارا علاقہ موسوم ہے .مرحوم شمس الرحمن شمس لکھتے ہیں, پُُرانی تاریخ میں ملاکنڈ کا نام مالاکُنڈ سے ماخوذ ہے . وہ یہ تاثر دیتے ہیں,ملاکنڈ نام دو فارسی الفاظ مالا اور کُنڈ کا مرکب ہے,مالا فارسی زُبان میں امیل کو کہتے ہیں,جبکہ کُنڈ فارسی زُبان میں پانی کو کہتے ہیں.جب کوئی درہ ملاکنڈ پار کرکے دریائے سوات پر نظر ڈالتا ہے,تو اس دریا کا پانی مالا کی شکل میں بہتا ہوا نظر آتا ہے,اس وجہ سے مالاکُنڈ نام پھر مشہور و معروف ہوا.دوسری روایت کے مُطابق ملاکنڈ نام مُلاکنڈاؤ نام سے ماخوذ ہے.بڑوں سے سُنا ہے,کہ یہاں ملاکنڈ زیرو پوائنٹ سے آگے ایک ویران جگہ پر پُرانے زمانے میں ایک مُلا رہتا تھا,جو دم تعویز کرتا تھا,وہ مُلا پھر مُلا کنڈاؤ کے نام سے مشہور ہوا.جو پھر بگڑ کر ملاکنڈ بن گیا..تیسری روایت کے مُطابق ملاکنڈ نام اصل میں مالا کنڈاو سے ماخوذ ہے,جسکے معنی ریڑھ کی ہڈی کی طرح Curved شکل میں نظر آنا ہے مطلب اگر کوئی ملاکنڈ کی پہاڑی پر نظر ڈالے تو یہ ریڑھ کی ہڈی کی طرح دکھائی دیتا ہے .چوتھی اہم روایت جو قدیم سنسکرت زُبان کی گرائمر کے موجد پانینی سے ماخوذ ہے وہ یہ ہے.پانینی نے علاقہ سمہ میں قدیم زمانے میں آباد تین قدیم قوموں کا ذکر کیا ہے.ایک قدیم قوم بھالا ہے اور اسی قوم کے نام پہ اب تخت بھائی اور مردان کے درمیان ایک علاقے کا نام سری بھالول موجود ہے.دوسری قوم بھیگا کا ذکر پانینی نے کیا ہے,اور اسی بھیگا قوم کے نام پہ ہُنڈ اور چھوٹا لاہور صوابی کے درمیان ایک علاقہ مشہور و معروف ہے,جبکہ تیسری مالا نامی قوم کا ذکر پانینی نے کیا ہے,اور اسی مالا قوم کے نام کی یہاں رہائش پزیر ہونے کی وجہ سے اس علاقے کا نام مالاکنڈ پھر مشہور و معروف ہوا. ملاکنڈ میں دو بڑے قبائل آباد ہیں.امجد علی اُتمانخیل کی اُتمانخیل نامی علاقے کے بارے میں ملاکنڈ ایجنسی کے سابق انگریز پولٹیکل ایجنٹ کپٹن ایچ .اے میک میھن اور اسسٹنٹ پولٹیکل ایجنٹ لیفٹننٹ اے ڈی جی رامسے کی تحریر شُدہ رپورٹ جو 1901 میں پبلش ہوئی ..اس رپورٹ کے مُطابق... اُتمانخیل کا علاقہ زیادہ تر پہاڑی ہے اور یہ دریائے باجوڑ اور دریائے امبار کے درمیان واقع ہے,اور پھر مشرق میں اسکی سرحد رانیزئی اور سمہ رانیزئی کے علاقوں تک پھیل چُکی ہے اور دریائے سوات کے کنارے کے ساتھ ساتھ اور جنوب میں پشاور تک اس علاقے کے حدود پھیل چُکے ہے ,یہ قبیلہ کرلانی قبیلے میں کودی شاخ سے تعلق رکھتا ہے ,جب یوسفزئی اور مندنڑ قبائل نے کوہِ سلیمان کے شمال مغربی حِصے سے کوچ کیا,تو اُتمانخیل کا قبیلہ بھی اُنکے ساتھ شامل ہوا.پھر جب سولویں صدی میں یوسفزئی قبائل نے سوات اور باجوڑ پر قبضہ کیا.تو اُتمانخیل نے اپنی مرضی سے اس علاقے کو قبضے میں لیا.اُتمانخیل ایک بڑا قبیلہ ہے,اور اس وقت اسکی آبادی چالیس ہزار ہے,یہ قبیلہ ہمیشہ سے آزاد رھ چُکا ہے.اور کبھی کسی کو اس نے خراج نہیں دیا,اُتمانخیل کا علاقہ بُلند بالا پہاڑوں پر مُشتمل ہے,جبکہ دریائے باجوڑ کے جنوبی اطراف میں اُتمانخیل کے کُچھ گاؤں( ہریانکوٹ,کوٹ,آگرہ,ٹوٹی, وغیرہ) میدانی ہیں.اسکی زمینیں زیادہ تر غیر پیداواری ہیں,یہ قبیلہ بُہت سے ذیلی شاخوں میں تقسیم ہیں ,لیکن مجموعی طور پر ان میں یکجہتی نظر آتی ہے,یہ قبیلہ رانیزئی قبائل سے الگ تھلگ رہتا ہے,لیکن ٹوٹئی گاؤں کے اُتمانخیل صرف رانیزئی قبیلے کے لوگوں کے ساتھ قریبی تعلق رکھتے ہے ,اُتمانخیل علاقے کا ایک چھوٹا حِصہ پشاور ضلع کے زیرِ انتظام ہے اس حِصے کے مشرق کی جانب ٹوٹئی گاؤں ,جبکہ شمال کی جانب دریائے سوات کا جنوبی water shed جبکہ مغرب کی جانب دریائے سوات بہتا ہے,اس علاقے کے لوگوں کو دامان اُتمانخیل کہا جاتا ہے. ان پہاڑی علاقوں میں آباد ہونے سے پہلے اُتمانخیل قبیلے نے لوند خوڑ وغیرہ کے علاقوں پر قبضہ کیا تھا.جو اب پشاور ضلع کا حِصہ ہے.اُتمانخیل قبیلے کی کُچھ شاخیں سانیزئ,بمبری,پیغزی ٹوٹئ گاؤں میں آباد ہیں.جبکہ دوسری شاخیں سنگاوو,کوھی,میاں خیل,خرکی,برمول,پیپل وغیرہ میں آباد ہیں.جبکہ لوند خوڑ کے علاقے میں اب خٹک آباد ہیں.
رانیزئی قوم جو اکو بن یوسف کی بیوی رانی کی اولاد ہیں.رانی کے تین بیٹے تھے.ایک کا نام مخا,دوسرے کا نام اتمان اور تیسرے بیٹے کا نام حلیم ہے.ان تینوں بیٹوں کی اولاد رانیزئی قوم کے نام سے مشہور ہیں. مخا بن اکو بابا کے پھر دو بیٹے سلطان خا خیل اور عثمانی خیل ہیں.سلطان خاخیل کی اولاد ملاکنڈ ایجنسی کے گاؤں مٹکنی, طوطا کان اور میخ بند میں آباد ہیں.جبکہ عثمانی خیل کی اولاد ملاکنڈ ایجنسی کے گاؤں ڈھیری جولگرام اور گڑھی عثمانی خیل میں آباد ہیں.سلطان بن مخا کے پانچ بیٹوں مردان خیل,امباراخیل,کری خیل,دادی خیل,اور اسماعیل خیل کی اولاد ملاکنڈ ایجنسی میں پھیل گئی.جبکہ عثمانی بن مخا سے پھر لنڈا خیل,عزیخیل,اور واڑہ عثمان تین بیٹوں کی اولاد ملاکنڈ میں پھیلی.اسطرح اُتمان بن اکو جسکی اولاد اُتمانزئ کے نام سے مشہور ہے.جبکہ حلیم بن اکو کے تین بیٹوں علی خیل,بہرام خیل,اور خوزہ خیل ہیں جو ملاکنڈ ایجنسی کے گاؤں آلہ ڈھنڈ ڈھیری,خار,امان درہ, وغیرہ میں آباد ہیں.علی خیل میں ملک شیردل خان ایک نامور ملک گزرا ہے.ملاکنڈ ایجنسی میں رانیزئی کی جائدادیں گاوں ورتیر,دوبندی,درگئ,موسیٰ مینہ,گڑھی عثمانی خیل,کوپر,کوٹ,ٹوٹی,مینہ,ہری چند,سخاکوٹ میں واقع تھی..جبکہ رانزئی قوم کے ملک ان زمینوں کو سوات آلہ ڈنڈ سے کنٹرول کرتے تھے.1872 میں شیردل خان نے زمین کے تنازعے پر اپنے بتھتیجے کو قتل کر ڈالا,جسکے نتیجے میں وہ آلہ ڈنڈ سے سخاکوٹ خان گڑھی نامی گاوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے.بعد میں اُس نے درگئ ورتیر,سخاکوٹ,کوپر,کوٹ وغیرہ کے لوگوں سے کہا .کہ اگر وہ میرا ساتھ دیکر آلہ ڈنڈ کی جائداد واپس حاصل کرنے میں میری مدد کریں تو پھر درگئ,سخاکوٹ,کوپر,ورتیر,کوٹ وغیرہ میں جتنی زمینیں رانیزئی قوم کی ہیں وہ ان لوگوں کو مستقل دی جائے گی..اس بات پر درگئ,سخاکوٹ,ورتیر,وغیرہ کے لوگوں نے ملک شیردل خان کا ساتھ دیکر آلہ ڈنڈھ میں ایک خونریز لڑائی لڑی.جس میں ملک شیردل نے فتح پا کر اسکے بدلے درگئ سخاکوٹ,ورتیر,کوٹ کوپر وغیرہ کے گاوں جو رانیزئ قوم کی تصرف میں تھے.یہاں کے رہایشیوں کو دے دئے...اب ملاکنڈ ایجنسی کے دو تحصیل جو سوات رانیزئ اور سمہ رانیزئ کے نام سے مشہور ہے.لیکن سمہ رانیئزئ (درگئ) میں اب رانیزئ قوم آباد نہیں....کیونکہ ایک اور واقع کے مطابق( پشتو زبان میں ایک قول ہے....چی سمہ رانیزئ پہ شاٹنگی بیللے دہ) .اب یہاں اتمانخیل اور دوسری مختلف قومیں آباد ہیں.
..ملاکنڈ لیویز فورس تاریخ کے آئینے میں...اکتوبر 1895 میں جب چترال ریلیف فورس نے خان عُمرا خان جندولی کی سلطنت کا خاتمہ کیا.تو اُسکے فوراً بعد برٹش انڈین گورنمنٹ نے ملاکنڈ ایجنسی کا قیام عمل میں لایا,اور میجر ایچ اے ڈین ملاکنڈ ایجنسی کے پہلے پولیٹیکل ایجنٹ بنے .ملاکنڈ ایجنسی میں سوات,دیر,باجوڑ,چترال اور ملاکنڈ کے علاقے شامل کئے گئے.پہلے پہل میجر ڈین نے ملاکنڈ ایجنسی میں برٹش سامراج کی عمل داری قائم کرنے کی خاطر سوات لیویز کے نام سے ایک فورس بنائی, اورسوات لیویز کے اہلکاروں کو 9 روپے تنخواہ دی جانے لگی .اُس وقت سوات لیویز فورس ( دیر لیویز,چترال بارڈر پولیس,ملاکنڈ لیویز) پر مشُتمل مُشترکہ فورس تھی .سوات لیویز میں پہلے مرحلے پر 192 سپاہی بھرتی کئے گئے.سوات لیویز کا پہلا جمعدار محمد اکرم خان ولدیت سید انور خان تھا,جسکا تعلق تیمر گرہ دیر سے تھا .1920 میں سوات لیویز کو نئ شکل دی گئ .اور صوبیدار میجر کا عُہدہ مُتعارف ہوا .1950 میں سوات میں ریگولر پولیس متعارف ہوئی.جبکہ چترال میں بارڈر پولیس اپنی ذمہ داریاں نبھانے لگی .تو انکوں سوات لیویز سے جُدا کردیا گیا جبکہ ملاکنڈ ایجنسی میں ملاکنڈ لیویز بشمول دیر لیویز باقی رھ گئے.بعد میں دیر میں بھی ریگولر پولیس متعارف ہونے سے دیر لیویز ملاکنڈ لیویز فورس سے جُدا ہوئی اور ملاکنڈ ایجنسی میں ملاکنڈ لیویز فورس سیکیورٹی کی ذمہ داریاں نبھانے لگی .ملاکنڈ لیویز 1977 تک adhoc base پر کام کرتی رہی اور وہ پنشن کی حقدار نہ تھی .لیکن پھر گاؤں ہریانکوٹ تحصیل درگئ ملاکنڈ سے تعلق رکھنے والے سابق صوبیدار میجر ( ملاکنڈ لیویز فورس) میر داد خان اور نائب صوبیدار الحاج محمد خان آف آلہ ڈنڈھ نے صدرِ پاکستان ضیاءالحق اوربعد میں بینظیر بھٹو اور وسیم سجاد سے ملاکنڈ لیویز فورس کے لئے ریگولر بُنیاد پر پنشن دینے کا حق حاصل کیا..ملاکنڈ لیویز فورس کو ہریانکوٹ کی مٹی کا شُکر گُزار ہونا چاہئیے...آجکل ملاکنڈ لیویز فورس وزارتِ سیفران کے ماتحت کام کرتا ہے ,2002 کے بعد ملاکنڈ لیویز ڈی سی او کی کمان میں اپنی ڈیوٹیاں سرانجام دے رہا ہے جبکہ صوبیدار میجر سیکنڈ ہائیر رینکنگ آفیسر ہے ..آجکل ملاکنڈ ایجنسی میں دس لیویز پوسٹ قائم ہیں .جنکی تعداد وقت گُزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہے .ہر لیویز تھانہ میں پوسٹ کمانڈر ہوتا ہے,اور ایک اضافی پوسٹ کمانڈر ہوتا ہے ,جنکے ماتحت سو سپاہی ہوتے ہیں.اسکے علاوہ انویسٹیگیشن آفیسر,ہیڈ کانسٹیبل,تین حوالدار,اور ایک محرر اور دو مدد محرر ہوتے ہیں .ملاکنڈ لیویز میں ٹریفک ونگ بھی ہے .جسکا انچارج ٹریفک صوبیدار ہوتا ہے .ایک بٹ خیلہ میں اور ایک درگئ شہر میں ٹریفک صوبیدار اپنی ذمہ داریاں نبھاتا ہے .ان ٹریفک صوبیدار کے ساتھ چار چار ٹریفک ہیڈ کانسٹیبل بھی ہوتے ہیں .ملاکنڈ لیویز آجکل 1836 سپاہیوں پر مُشتمل فورس ہیں .ملاکنڈ ایجنسی میں امن و امان قائم رکھنے کے ساتھ ساتھ ملاکنڈ لیویز کے اہلکار درگئ شہر میں واقع تین ہائڈرو پاور ہاؤسز ( جبن پاور ہاؤس,درگئ پاور ہاؤس,ملاکنڈ پاور تھری) کی سیکیورٹی کی ذمہ داریاں بھی نبھا رہے ہیں . لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2002 کے تحت ملاکنڈ ایجنسی میں لیفٹننٹ کرنل سید رسول کو ملاکنڈ لیویز کا پہلا کمانڈنٹ مقرر کیا گیا تھا ..جبکہ آجکل ملاکنڈ لیویز کی کمان ریحان گل خٹک کے ہاتھ میں ہے .ملاکنڈ لیویز ( Malakand Levies) میں لفظ لیویز یا لیوی کے معنی خوشی سے ایک ساتھ اکٹھا ہونے کے ہے..شُکریہ .
تحریر...امجد علی اُتمانخیل.
ملاکنڈ |
0 Comments